...

2 views

بےدرد ‏زمانہ
مالی کے چمن میں دیکھ کیا عجب فسانہ ہے
یہ دید ہیں پھولوں کی بلبل بھی دیوانہ ہے

یاروں نے بچھڑنے کے الزام تراشے ہیں
یہ دوش نہیں ان کا بے درد زمانہ ہے

اس عصر سے تم کو یار کیا فیض میّسر ہے
جس دم پہ کھڑے تم ہو یہ دم بھی بے گانہ ہے

اس دور نے ہم کو بس ایک سبق سکھایا ہے
جس جس نے وفا کی ان سب کو رلانا ہے

پرواز ہے جن کی آکاش کے چرنوں تک
معلوم کیا ان کو دھرتی تلے آشیانہ ہے

انبر کی خواہش ہے پانی کے بلبلے میں
اجل کی آمد پہ موجوں کا بہانا ہے

کیا تیز چلائے ہیں زخموں پہ خنجر تو نے
بے آس ہوئے ہے ہم بے ہوش بنانا ہے

کیا سوچ رہا ہے اسیرؔ اس دور کی بربادی پر
تجھکو تو زمانے کا ہر داغ مٹانا ہے